کشمیر میں تانگہ سواری کا کلچر اب بھی زندہ، مگر آخری سانسیں لے رہا ہے

0
281

سری نگر: وادی کشمیر میں 1880 ء کی دہائی میں ڈوگرہ شاہی خاندان کے تیسرے فرمانروا مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دوران حکومت میں جب سیاحوں کا آنا شروع ہوا تو اُس وقت شاہی سواری سمجھی جانے والے تانگے آمدورفت کا واحد ذریعہ تھے ۔

کشمیر آنے والے سیاح جن میں زیادہ تعداد یورپی شہریوں کی ہوا کرتی تھی، کو تانگہ سواری کے لئے باضابطہ طور پر بکنگ کرنی پڑتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ شاہی سواری عام کشمیریوں کی آمدورفت کے لئے بھی استعمال ہونے لگی تھی اور تانگہ رکھنے والے گھرانوں کو امیر ترین سمجھا جاتا تھا۔ گاڑیوں کے متعارف ہونے سے قبل وادی میں ہزاروں کی تعداد میں تانگے چلتے تھے ۔ ان تانگوں کے لئے ہر ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹر میں باضابطہ سٹینڈ تھے ۔ لیکن وقت گذرنے اور گاڑیوں کے عام ہونے کے ساتھ اب وادی میں چند گنی چنی سڑکیں ایسی ہیں جن پر تانگے اب بھی سواریوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ ان سڑکوں پر چلنے والے تانگوں کی تعداد 400 سے زیادہ نہیں ہوگی ۔

کشمیر کے جن علاقوں میں تانگہ چلنے کی روایت اب بھی برقرار ہے ، ان میں شمالی کشمیر کا سوپور، پٹن، وسطی کشمیر کا ماگام اور جنوبی کشمیر کا مٹن علاقہ قابل ذکر ہیں۔ تانگہ بانوں نے اس روایت کو زندہ رکھنے کے لئے اسے آمد ورفت کا سستا ذریعہ بنایا ہے ۔قریب سات کلو میٹر کے فیصلے پر چلنے والے ان تانگوں کا کرایہ زیادہ سے زیادہ دس روپے ہے اور اگر تانگہ بان دن بھر تانگہ چلائے تو اس کی دن کی آمدنی زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے ہوتی ہے ۔
یو این آئی نے شمالی اور جنوبی کشمیر میں متعدد تانگہ بانوں سے بات کی جن کا مجموعی طور پر کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اس پیشے سے وابستہ نہیں کریں گے ۔ ان کے مطابق ‘اس پیشے میں آمدن کم اور خرچہ زیادہ ہے ۔ جہاں یہ پیشہ حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہے وہیں اب لوگ بھی تانگہ پر بیٹھ کر سفر کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں۔ حکومت تانگوں کو ہیریٹیج کا حصہ قرار دینے کے بجائے ٹریفک جام کا سبب قرار دے رہی ہے ۔ ایسی صورتحال میں کون تانگے کی لگام اپنے بیٹے کے ہاتھ میں دے سکتا ہے ‘۔